جناب استاد عباس تابش کی نذر
بزمِ سخن سجی ہے کبھی آپ آئیے
ویسے تو ہر کوئی ہے کبھی آپ آئیے
دیوار پر لگائی تھی تصویر آپ کی
دیوار کہہ رہی ہے کبھی آپ آئیے
زحمت تو ہو گی آپ کو لیکن سرِ خیال
چھوٹی سی حاضری ہے کبھی آپ آئیے
میرے لبوں سے آہ نکلتی ہے شام کو
یہ راگ بھیروی ہے کبھی آپ آئیے
جس غم میں آپ رہتے ہیں اس غم سے تھوڑی دور
دل والوں کی گلی ہے کبھی آپ آئیے
صدیوں کا سلسلہ ہے بُلا بیجھیے ہمیں
دو دن کی زندگی ہے کبھی آپ آئیے
سنجیدہ ہم سخن ہیں جہاں بیٹھتا ہوں میں
پر لطف شاعری ہے کبھی آپ آئیے
اکرام کہتا رہتا ہے سنتا نہیں کوئی
دیوانہ آدمی ہے کبھی آپ آئیے
اکرام عارفی